اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں لیکچر کے بعد:

 

سیلیکون ویلی کے متعدد ممتاز کاروباری رہنماؤں اور ایگزیکٹو شخصیات نے سیکرٹری جنرل رابطہ اور چیئرمین مسلم علماء کونسل، عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد العیسی  

سے ایک وسیع فکری ومعاشی نشست میں ملاقات کی۔

 

اس ملاقات میں اسلامی معاشی نظام اور اس کے تشریعی مقاصد کی وضاحت کی گئی، جو عدل، توازن اور اخلاقی اقدار پر قائم ہیں۔ بالخصوص اس معروف اصول پر زور دیا گیا: لا ضرر ولا ضرار، یعنی: ”نہ خود نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ ہی بدلہ میں نقصان دینا“۔ عزت مآب نے وضاحت فرمائی کہ اسلام جب بعض مالی معاملات کو اخلاقی واقداری بنیادوں پر ممنوع قرار دیتا ہے، تو ان کے متبادل بھی فراہم کرتا ہے جو نہ صرف جائز بلکہ مالی اہداف کے حصول میں مؤثر اور معاون ہوتے ہیں۔

 

آپ نے اس ضمن میں ایسی مثالیں پیش کیں جو اسلامی نصوص کی وسعت، لچک اور زمان ومکان کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی کو اجاگر کرتی ہیں۔

 

شرکاء نے اس پر اتفاق کیا کہ اسلامی مالیاتی ماڈلز، اپنے تشریعی امتیاز کے باوجود، عالمی سطح پر مؤثر نتائج فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ماڈلز نہ صرف مالی فوائد دیتے ہیں بلکہ ان میں اخلاقی پائیداری بھی مضمر ہے۔ اسی تناظر میں غیر مسلم مالیاتی اداروں کی جانب سے اسلامی مالیاتی اصولوں کو اپنانے کے رجحان کا بھی ذکر آیا، مثلاً شراکتی قرضے، جن میں قرض دہندہ محض قرض دینے والا نہیں، بلکہ شراکت دار ہوتا ہے۔

 

متعدد شرکاء نے خواہش ظاہر کی کہ رابطہ عالم اسلامی، عزت مآب کی اس وضاحت کو انگریزی زبان میں علمی اشاعت کی صورت میں منظر عام پر لائے، تاکہ اس سے دنیا بھر میں مستفید ہوا جا سکے۔

 

گفتگو میں اسلامی ثقافت، اس کی انفرادیت اور دیگر ثقافتوں کے ساتھ اس کے اشتراکات پر بھی مختصر مگر جامع گفتگو ہوئی۔

 

اس موقع پر عزت مآب نے کاروباری اداروں میں فلاحی سرگرمیوں کے اخلاقی اور سماجی فوائد پر بھی روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ چاہے وہ ادارے کی ساکھ ہو، قیادت کا مثبت تاثر ہو یا سماجی اثرات، خیر کے کام ہمیشہ عزت و احترام کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور مومن کے لیے اصل امید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم ہوتی ہے۔

 

آپ نے مزید فرمایا کہ قابلِ مشاہدہ تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ خیراتی سرگرمیوں کے اثرات اداروں کی آمدنی پر بھی مثبت ہوتے ہیں۔ مومن اسے برکت سمجھتا ہے، جبکہ دیگر اسے مثبت ساکھ اور عوامی تائید کا ثمر قرار دیتے ہیں، جو بالآخر ادارے کے لیے سازگار ثابت ہوتا ہے۔

 

آخر میں، ڈاکٹر العیسی نے اسلامی تعلیمات میں جدت، اختراع اور علمی ترقی کی اہمیت پر بھی زور دیا، اور اسلامی تاریخ سے اس کی کچھ روشن مثالیں پیش کیں۔ آپ نے واضح کیا کہ مصنوعی ذہانت (AI) میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی پاسداری پر سنجیدہ توجہ دینا بھی لازم ہے، ورنہ اس کے خطرناک نتائج سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔