آج ایک باضابطہ دعوت پر:

امریکہ کی ممتاز یونیورسٹی اسٹینفورڈ نے سیکرٹری جنرل رابطہ اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد العیسی  

کے اعزاز میں”عصر حاضر کے تنازعات کے تناظر میں اقدار کا كردار“ کے موضوع پر ایک خصوصی لیکچر کا انعقاد کیا۔

ليكچر کا مرکزی محور مذہبی اور فکری نظریاتی تصادم، ان کے خطرات اور ممکنہ حل تھے ۔ اس میں واضح کیا گیا کہ دینی وفکری اختلافات انسانی فطرت اور دنیا کی ایک ناگزیر حقیقت ہیں، جن کا خاتمہ ممکن نہیں، تاہم ان اختلافات کو باہمی مفاہمت، بقائے باہمی اور تعاون میں بدلنا ضروری ہے۔ لیکچر میں اختلافات کے تصادم اور سماجی وقومی تفرقے میں بدل جانے کے اثرات پر تجزیاتی روشنی ڈالی گئی، اور اس ضمن میں معروف نظریات اور تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر تفصيلی گفتگو کی گئی، خصوصاً ان نعروں اور نظریات کا جائزہ لیا گیا جو فکری انتہاپسندی یا تنگ نظری کو ہوا دیتے ہیں، جیسا کہ بعض اوقات معاشی آزادی کو ایک مقدس اور خود مرکوز عقیدہ بنادیا جاتاہے،جس کے نتیجے میں انصاف اور باہمی یکجہتی کے اصولوں کی پامالی جیسے اصول پامال ہوتے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ تنقید کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کوئی ریاست یا ادارہ اپنے جائز مفادات کی حفاظت سے محروم ہو، بشرطیکہ وہ مفادات اخلاقی اور قانونی دائرے میں ہوں۔

لیکچر میں بین الاقوامی قانون اور انسانی بین الاقوامی قانون کے تصورات کی مختصر وضاحت کی گئی، اور موجودہ عالمی حالات کی روشنی میں ان کے اطلاق کی نوعیت کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔

بعد ازاں، رابطہ عالم اسلامی کی ان عالمی کوششوں کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کی گئی جن کا مقصد دنیا بھر میں معاشروں اور اقوام کے درمیان امن وہم آہنگی کو فروغ دینا اور ان کا باہمی ربط مضبوط کرنا ہے۔

مزید برآں، تشخیص، حل اور مثالوں کے تناظر میں کچھ اسلامی اقدار کی تفصیلی وضاحت بھی کی گئی۔

اس موقع پر اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسلامی تشریعی مقاصد اور ان کے عملی نفاذ کو صحیح تناظر میں سمجھنا لازم ہے، اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ اصل اسلام اور بعض افراد یا گروہوں کے انفرادی رویّوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں میثاقِ مکہ مکرمہ کا حوالہ دیا گیا، جو عالم اسلام کے اجماعی شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے پس منظر، تدوین اور اہم نکات کا مختصر مگر جامع تعارف بھی پیش کیا گیا۔

لیکچر کے اختتام پر سوال وجواب اور مکالماتی نشست ہوئی، جس میں سامعین کی آراء، سوالات اور تجاویز کو سنا گیا۔

اس علمی اجلاس میں یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ، طلبہ، اور مہمانوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے اس علمی خطبے کو ایک اہم، تحقیقی اور فکری لحاظ سے منفرد کوشش قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ اسے ایک جامع کتابی صورت میں مرتب کر کے اسے یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے شائع کیا جانا چاہئے۔

بعد ازاں، عزت مآب ڈاکٹر العیسی کے اعزاز میں ایک ظہرانہ بھی دیا گیا، جس میں مختلف کلیات کے ڈینز اور تدریسی عملے کے ارکان نے شرکت کی۔