آج دوپہر:

سيكرٹری جنرل رابطہ اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد العیسی نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع سرکاری اسلامی یونیورسٹی ”شریف ہدایۃ اللہ “ میں ایک عمومی لیکچر دیا۔ یہ یونیورسٹی ملک کی قدیم ترین اور سب سے بڑی درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے، جہاں دو ہزار اساتذہ تدریس سے منسلک ہیں۔لیکچر میں یونیورسٹی کے صدر اور اُن کے نوّاب، انتظامیہ کے ذمہ داران، اساتذۂ کرام، تحقیق واعلیٰ تعلیم کے  طلبہ، اور انڈونیشیا کے مذہبی وفکری اداروں کے نمائندگان شریک ہوئے۔

ڈاکٹر العیسی نے اس علمی لیکچر میں رابطہ عالم اسلامی کی اعتدال اور بقائے باہمی کے اصولوں کو مضبوط کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی، یہاں تک کہ آج یہ ادارہ اس میدان میں عالمی سطح پر ایک سرکردہ مرجع بن چکا ہے۔ یہ کوششیں ایک ایسے اسلامی منہج پر مبنی ہیں جو اسلام کے پیغام کے صحیح فہم پر استوار ہے، جو رحمت، عدل اور میانہ روی پر قائم ہے۔

لیکچر میں رابطہ کی جاری کردہ اہم تاریخی دستاویزات کا بھی تذکرہ کیا گیا، جن میں سرفہرست”میثاقِ مکہ مکرمہ“ ہے،جو امت کے اکابر علماء کے اتفاق سے منظور ہوئی اور اسے اعتدال پسند اسلامی فکر کے فروغ اور انتہاپسند بیانیے کے مقابلے میں ایک بنیادی اصلاحی دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔

اسی طرح ”اسلامی مکاتبِ فکر کے درمیان پل قائم کرنے کے چارٹر“ کا جائزہ بھی پیش کیا گیا، جس نے امت کے بڑے مشترکات کو اجاگر کیا، صفِ واحد کی تاکید کی، اور اختلافِ رائے کو علمی تنوع اور اسلامی روایت کی وسعت قرار دیتے ہوئے اسے امت کی فکری دولت بتایا، نہ کہ اختلاف و تنازع کا سبب۔

ڈاکٹر العيسی نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے رکن ممالک نے ”میثاق مکہ مکرمہ“ کی توثیق کی ہے، اور اسلامی ممالک میں مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں اس سے استفادہ کرنے کی سفارش کی ہے۔

اسی طرح تنظیم کے رکن ممالک نے ”اسلامی مکاتبِ فکر کے مابین پل قائم“ کرنے کے تاریخی جامع کانفرنس کو بھی سراہا اور اس کے نتائج کو ایک ایسی راہنما دستاویز قرار دیا جو امت کے مشترکہ مذہبی کام کے لیے روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے، خصوصاً ان بڑی اسلامی چیلنجز کے تناظر میں جنہیں متحدہ علمی موقف کی ضرورت ہے، جیسے اسلاموفوبیا، جس کی جڑ میں غلط فہمیاں، دانستہ تحریفات اور بے بنیاد شبہات پائے جاتے ہیں، جن کا جواب ایک متحد اسلامی خطاب سے دیا جانا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس دستاویز کو اسلامی ممالک میں فعال کرنے کے لیے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور تنظیم تعاون اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے درمیان ایک تعاون معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔

لیکچر میں ”مشرق ومغرب کے درمیان پلوں کی تعمیر“ کے اقدام پر بھی بات کی گئی، جسے رابطہ عالم اسلامی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے شروع کیا تھا، جس میں بین الاقوامی تنظیم کے رہنماؤں، اور دنیا بھر سے مذہبی قیادتوں، پارلیمانی اور فکری شخصیات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس اقدام کا مقصد دنیا کے لوگوں کے درمیان مؤثر دوستی اور ٹھوس تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ ان کے امن، ہم آہنگی اور خوشحالی کو حاصل کیا جا سکے، اور جامع انسانی مشترکات کی روشنی میں ان کے عالمی میثاق کو مضبوط کیا جا سکے۔ یہ سب ”تہذیبوں کے تصادم“، ”سیاسی کشمکش“ اور ”متعدد تقسیموں“ کے نظریات، نعروں اور طریقوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے، جبکہ تمام لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی خصوصیات کا خیال رکھا جائے اور ان کے انسانی وقار کا احترام کیا جائے۔

لیکچر میں انڈونیشیا کے اس قومی اور عالمی کردار کی بھی تعریف کی گئی جو اسلام کی حقیقی وسطیت اور اعتدال کا عملی نمونہ ہے، اور جسے رابطہ عالم اسلامی عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

لیکچر کے آخر میں اسلامی تشریعی ورثے کی مثالیں پیش ہوئیں، خصوصاً سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات، جو اسلام کی رواداری، اعلیٰ تہذیب اور انسانیت کے مشترکہ اقدار کے احترام کو واضح کرتی ہیں، جن کا تکمیل فرمانا ہمارے نبی کریم ﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد تھا۔