رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے انسانیت کے درمیان قربت ومفاہمت  اور غلط فہمیوں کے ازالے کے ذریعے باہمی خدشات پر قابو پانے کے لئے تہذیبوں کے درمیان مکالمہ  کی ضرورت پر  زوردیتے ہوئے کہاہے کہ   سوچ  اور فكر  پر صرف سوچ اور فکر کے ذریعے ہی اثر انداز ہواجاسکتاہے ۔

ڈاکٹر العیسی نے  ”الرجل“ میگزین سے ایک  تفصیلی انٹرویو میں بغیر کسی کے نام لئے ہوئے نفرت،  نسل پرستی اور فرقہ واریت کے بیانئے کے حاملین کو نشانہ بناتے ہوئے  کہاہے کہ ان کی وجہ سے بنیادی مسائل  ثانوی بن چکے ہیں، اور یہ طبقہ مکمل ذہنی پستی کا شکار ہے۔

انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاہے کہ اسلام سے منسوب بعض  لوگوں  اسلام فوبیا میں اضافے کا سبب بنے چاہے وہ شدت پسند  بیانئے کے ذریعے  سے ، یا انتہاپسندی  اور دہشت گردی کے ذریعے سے  ہو۔انہوں نے مزید کہاکہ بدقسمتی سے   سب نے شرعی نصوص کو اپنی منہج کی تائید میں استعمال کرنے کی کوشش کی  اور اس میں  ان نصوص کے مفاہیم  کو مسخ کرنے کی سعی کی گئی۔

رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے ایڈیٹر انچیف محمد فہد الحارثی  کو انٹرویو دیتے ہوئے   اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا  کہ لوگ کہتے ہیں کہ مذہب مسئلے کا  حصہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ  مذہب حل کے اہم ستون میں سے ایک ہے۔ اور عوام میں اس کی تاثیر کی وجہ سے  مذہبی بیانئے کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔اسی طرح   دنیا میں نظام تعلیم کا بہت بڑا اثر پایا جاتاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ایسے نظام تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو بقائے باہمی  اور احترام کے تصور کو مستحکم  کرتاہے۔ہم ایسے نظام کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے فروغ کی زیادہ سے زیادہ دعوت دیتے ہیں۔ 

اس سلسلے  میں انہوں نے اساتذہ کی تربیت کی اہمیت  پر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہاہے کہ تعلیمی نصاب کے ساتھ ایسے اساتذہ بھی ضروری ہیں جو اس    پیغام اور ہدف پر یقین  رکھتے ہوں، کیونکہ وہ وہی پیغام آگے منتقل کریں گے جن پر  ان کا یقین  ہوگا،اس لئے مذکورہ اہداف کے حصول کے لئے نصاب کی تبدیلی کے ساتھ اساتذہ کی تربیت بھی ضروری ہے۔

 

سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسی:  اقوام متحدہ میں رابطہ کی کانفرنس

رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل  ڈاکٹر محمد العیسی نے انکشاف کیا ہے کہ اس سال موسم گرما کے آخر میں رابطہ اقوام متحدہ میں ایک عالمی کانفرنس کا اہتمام کررہی ہے   جس میں نفرت انگیز بیانیئے کا سدّباب اس کے اہم محاور میں سے ہوگا۔

انہوں نے  اپنے وژن اور پیغام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاہے کہ ” وہ اسلام کا پیغام ہے  جو اعتدال اور وسطیت پر مبنی روایات سے مستحکم ہے، جو  ایک عالمگیر،آخری اور ہر زمان ومکان کے لئے  مناسب دین ہے..یہ پہلی بات ہے۔اس کے بعد  مکالمہ اور بعض اوقات مذہبی، فکری اور انسانی حقوق کے مقالوں میں مباحثہ“۔

ڈاکٹر العیسی نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے موقف کاحوالہ  دیتے ہوئے کہاکہ  وہ جب  انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں  تو انہیں اس بات کا احساس ہے کہ    مملكت سعودی عرب  کا قیام جس اعتدال اور وسطیت کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے، وہاں چند ایسے مسائل ہیں جو انتہاپسندی کے ذریعے ایک منظم اور خطرناک طریقے سے  اسے اس منہج سے ہٹانے  اور مملکت  کی معمول کی زندگی کو مذہبی اور معاشرتی طورپر  تبدیل کرنے کی کوشش  کررہے ہیں اور شریعت اسلامیہ  جس میں   تسامح اور وسعت کا  طویل باب ہے اسے تنگ کرنے میں مصروف ہیں۔

ڈاکٹر العیسی وزارت عدل سے وابستہ رہے۔آپ وزیر عدل کے منصب پر فائز رہے۔الرجل میگزین سے  مملکت میں عدلیہ کے  کردار کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے  کہاکہ مملکت  میں عدلیہ محفوظ ہاتھوں میں ہے  اور 90 سال سے  اس   کی پہلی تنظیم سے لے کر  آج تک  اس  میں اصلاحات جاری ہیں۔

ڈاکٹر محمد  بن عبد الکریم العیسی نے کہاہے کہ مملکت کے  وژن 2030  نے عدلیہ میں اصلاحات کے عزم کو بہت  بلند کیا ہے اور عدلیہ کی ذمہ داری اور اس کی کاوشوں میں اضافہ کیا ہے ۔انہوں نے مزیدکہاہےکہ عدلیہ میں اہم ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے شہزادہ محمد بن سلمان کی سوچ کارفرما ہے جس کا ثبوت حالیہ جاری ہونے اور فعال ہونے والا نظام ”نفقہ فنڈ“ ہے ۔

ڈاکٹر محمد العیسی نے اختلاط کے مسئلے پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ اگر کوئی اختلاط کو مطلقاً جائز یا اسے مطلقاً ممنوع قراردیتاہے تو وہ شرعی حکم میں غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔  مرد اور عورت اس معاشرے کا حصہ ہیں اور مختلف مقامات میں ان کے اختلاط سے مفر نہیں ہے جیسے کہ بازار اور دیگر  عام مقامات جہاں عام طورپر  لوگ  گھل مل جاتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، البتہ ایسا اختلاط جہاں شک وشبہ کی گنجائش پیدا ہو، یا جس میں تنہائی   یا برانگیختگی  کا  خطرہ ہو، تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔

ڈاکٹر محمد العیسی نے اپنی نجی زندگی کےبارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاہے کہ سماجی  ذمہ داریوں کے علاوہ ،میں نے خود کو علمی مشاغل کے لئے وقف کردیاہے اور عوامی تقاریب میں بہت کم شرکت کرتاہوں، چاہے  وہ نجی ہوں یا عمومی، اور  میرا حلقہ اس کے لئے مجھے معذور سمجھتاہے، یہی میرا اسلوبِ حیات ہے۔ وقت بہت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔اور  میرا دلچسپ اور محبوب مشغلہ   پڑھنا، تجزیہ کرنا، مناقشہ اور فلسفی اور فکری گفت گو کرنا ہے۔

ڈاکٹر محمد العیسی نے بتایا کہ ان کا  بیشتر وقت کام کرنے میں صرف ہوتاہے اور تیس سالوں میں  انہوں نے  کوئی چھٹی نہیں  لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ : میں چھٹی کے دن بھی کام کرتاہوں  اور میری فیملی اس کا لحاظ رکھتی ہے،میری طرف سے  انہیں رشتہ داروں کے پاس آنے جانے کی مکمل آزادی ہے،میں ان کے ساتھ گھر میں کافی وقت گذارتاہوں اور کبھی ان کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ پر چلاجاتا ہوں۔

بچوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ : میں یہ کہہ سکتاہوں کہ میں ان کے لئے ایک مشیر کی حیثیت رکھتاہوں  اور میری کوشش ہوتی ہے انہیں یہ احساس نہ ہونے دوں کہ میں ان پر کوئی  سخت پہرہ دار ہوں،میں انہیں نصیحت کرکے انتخاب کا حق ان کے لئے چھوڑدیتاہوں“ ۔

اپنی خواہش کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ :اسلام سے متعلق بعض لوگوں   -خصوصاً اہل مغرب- کا منفی تصور زائل ہو اور مسلمان اپنے دین کی حقیقت کو سمجھیں کہ یہ دین   ہمیں سب کے ساتھ  مل کر،محبت اور رواداری سے  رہنے کی تعلیم دیتاہے۔