ہمیں یہودی مذہب کے ساتھ مسیحی مذہب کے مانند سلوک کرنے کی ضرورت ہے.. دونوں کا شمار اہلِ کتاب میں ہوتاہے ۔ ڈاکٹر العیسی
مضامینرابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور مسلم علماء کونسل کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے کہاہے کہ رابطہ بین المذاہب امن کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔چاہے وہ یہودی مذہب ہو یا عیسائی۔ان مذاہب کے متعصبین اور انتہاپسندوں کے علاوہ رابطہ سب کے ساتھ مل کر امن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکررہی ہے۔انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاہے کہ کچھ لوگ آسمانی مذاہب اور ان مذاہب کی طرف غلط طورپر منسوب افراد کی وجہ سے الجھن کا شکار ہوتے ہیں، انہوں نے کہاہے کہ مختلف مذاہب کے مابین ”اخوت “کا لفظ استعمال کرنا معمول کی بات ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے ”العربیہ“ چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ بعض لوگوں کو آیت مبارکہ ”اور یہود ونصاری تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کی ملت کی پیروی نہیں کروگے“ کو صحیح طور پر سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔یہ آیت مبارکہ قبلہ کی تخصیص سے متعلق ہےجیساکہ ابن عباس رضی اللہ تعالی سے منقول ہے۔
انہوں نے کہاہے کہ اگر قبلہ مراد نہ لیاجائے تو پھر بھی اس سے مراد دینی انشراح ہے۔ہر دين کی اپنی مخصوص معتقدات ہیں اور عقائدی خصوصیات سے متعلق وہ نہیں چاہے گا کہ آپ ان کی معتقدات سے ضرور اتفاق کریں،ورنہ تمام مذاہب ایک میں متحد ہوجائیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”ہمارے مسیحی یا یہودی بھائی “ تو اولاً: اخوت کی اصطلاح قرآن کریم میں متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے، جیسے کہ دینی اخوت” مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں“ اسی طرح نسبی اخوت، چاہے وہ جتنے دور کا اور جس دین کا متبع ہو، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے”اورقوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا“اگرچہ وہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے۔
انہوں نے مزید کہاہے کہ ایک اخوت انسانی رشتے کے حوالے سے ہے ، چاہے اس میں عقائد مختلف ہوں۔ارشاد باری تعالی ہے: ”اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو..“ یہاں سے انسانی اخوت کے اصطلاح نے جنم لیاہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اخوت کا لفظ صرف دینی اخوت کے لئے خاص ہے جب کہ قرآنی آیت میں اسے عمومی انسانی اخوت کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہاہے کہ ہم کسی بھی نفرت انگیز یا اشتعال انگیز اسلوب سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکتے ہیں،مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے دینی ثوابت پر بھی سختی سے کاربند رہیں گے ۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم رابطہ کے پلیٹ فارم سے عقیدے اور شریعت کے پاسبان ہیں ۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹڑی جنرل نے کا کہناتھا کہ ہم ان اصولوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جن پر ہمارا یقین ہے،جن میں سے ایک اہل مذاہب کے درمیان امن کا فروغ ہے۔ہم یہودی مذہب کے ساتھ بطور مذہب تعامل کررہے ہیں جیسا کہ مسیحی مذہب کے ساتھ کرتے ہیں۔سب کا شمار اہلِ کتاب میں ہوتاہے۔قرآنی نص کے مطابق وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے”سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں.. “انہوں نے کہاہے کہ بعض اہلِ یہود اسلام فوبیا کے خلاف مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ہم متشدد، انتہاپسند ،متعصبین اور خصوصاً ان لوگوں کے ساتھ ہرگز تعامل نہیں کرتے جو مسلمانوں کی ایذارسانی کا سبب بنتے ہوں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین، تہذیب یا فکر سے ہو،مگر حقیقت یہ ہے کہ چند افراد کی غلطیوں کا ذمہ دار سب کو بنانا درست نہیں ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:”اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا..“۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دشمنی اور نفرت کے نعروں سے اپنے مذہب کو مجروح کرنے کے علاوہ ہم کچھ اور حاصل نہیں کرسکتے ہیں ۔