رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور رکن ہیئۃ کبار العلماء شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں  سے مقامی تہذیب کے متاثر ہونے کے خدشات کی نفی کی ہے۔جنرل اتھارٹی برائے سیاحت وقومی ورثہ    کی طرف سے  اس سال 27 ستمبر کو مملکت کے مختلف شہروں کے لئے   بیرون ملک  سے آنے والے سیاحوں کے لئے  سیاحتی ویزوں کے اجرا کے اعلان کے بعد مختلف حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ غیر ملکی سیاحت سے  بلادِ حرمین شریفین میں رائج اسلامی ثقافت کو خطرہ  کا اندیشہ ہے۔

ریاض  سیاحت اتھارٹی نے ایک فورم کا انعقاد کیا جس میں مختلف حکومتی رہنماؤں  نے شرکت کی اور فورم نے  مملکت میں سیاحت کے  مستقبل کے بارے  میں آراء کا تبادلہ ہوا۔ڈاکٹر العیسی نے اس موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے ملک میں اسلامی ثقافت کی مضبوط  اور ٹھوس بنیادیں ہیں۔اور   اصول یہ ہے کہ  طاقتور اور مضبوط ثقافت دوسروں کو متاثر کرتی ہے نہ کہ خود متاثر ہوتی ہے۔یہاں سے  اسلام کا پیغام نکلا ہے اور وہ مضبوط اور طاقتور رہے گا۔ہماری تہذیب سے آنے والے سیاح متاثر ہونگے کیونکہ ہماری  تہذیب  بہترین روایات کی حامل ہے جس میں سب سے اہم روایت دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک ہے چاہے وہ ہم سے عقائد اور معاشرتی  رسوم ووراج میں  مختلف کیوں نہ ہوں۔ہماری تہذیب  دوسروں کا خیر مقدم کرتی ہے اور اس میں   مہمان اور آنے والوں کے لئے  فراخ دلی اور خوشی کے جذبات پنہاں ہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی صنف ، رنگ  اور مذہب سے اس کا تعلق ہو۔ہمارے دین میں اختلاف کے اعلی معانی ہیں جس میں تمام انسانوں کی عزت اور احترام ہے۔ہم غیر مسلموں سے انسانیت کے ناطے اور اچھے سلوک سے پیش آتے ہیں، اور یہی ہماری دینی تعلیمات کی  بنیاد  ہے ۔

ڈاکٹر العیسی نے اسلام میں سیاحت کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاہے کہ یہ شرعی مباحات میں سے ہے،اور جیساکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے نقطۂ نظر سے ہم سب کے علم میں ہے کہ  سیاحت کے معاشی فوائد ہیں جو ملکی مفاد  اور مختلف میدانوں میں اس سے مختلف ترقیاتی اہداف وابستہ ہیں۔ اس تناظر میں یہ ایک ضرورت اور اس کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے  ملک کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع کی فراہمی شامل ہے۔اگر ہم اسے اس زاویہ سے دیکھیں تو یہ جواز سے وجوب کے درجے میں آجاتاہے جس سے فرد اور معاشرے کا مفاد وابستہ ہے۔

رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے  غیر مسلم سیاح خواتین کے لئے مسلم خواتین کی مانند مکمل حجاب کی پابندی کےحوالے سے  کہاہے کہ غیر مسلم خواتین کو مسلم خواتین کی طرح لباس کا پابند اور زندگی کے مختلف معاملات میں مسلم خواتین کی طرح پابند بنانا شرعی طریقۂ کار نہیں ہے۔اس معاملے میں گنجائش ہےاور  سب کو اس کا علم ہونا ضروری ہے ۔دوسروں کو ماننے اور ان کی تہذیب کو قبول کرنے کا تقاضہ ہے کہ اعتدال پسند معاشروں کے درمیان جاری بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند رہا جائے۔مملکت میں ذوق العام کے ضوابط  جس کا اعلان  سیاحتی  ویزوں کےاجراء کے ساتھ کیا گیا ہے  اس میں عوامی مقامات پر   غیر مناسب لباس پہن کر جانے کی ممانعت ہے اور اس قانون کا  اطلاق صرف شہریوں پر نہیں بلکہ سب پر ہوتاہے ۔اور ان میں اس ملک  کے وزٹ کرنے والے اور تمام سیاح شامل ہیں۔تمام لوگ عوامی اخلاقیات کا احترام کرتے ہوئے ایسا لباس پہن کر باہر نکلنے کے پابند ہیں  جو ذوق العام کے مطابق    ہو اور مخرب الاخلاق اور بے حیائی کے زمرے میں نہ آتے ہوں۔